دریا قطرے سے ملے گا تو قطرہ غائب ہو جائے گا

عبد المجید سالک Ù†Û’ علامہ اقبال Û’ Ø+الات Ú©Û’ بیان میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جس سے تصوف Ú©Û’ بارے میں ان Ú©Û’ مخصوص نقطۂ نظر Ú©ÛŒ وضاØ+ت ہوتی ہے وہ لکھتے ہیں۔
''میں شام Ú©Û’ وقت Ø+سبِ معمول Ø+اضر خدمت تھا کہ ایک بزرگ فقیر Ø+ضرت Ú©Û’ پاس آئے۔ باتیں شروع ہوئیں Ø+ضرت Ù†Û’ فرمایا۔ ''سائیں جی میرے لئے دعا کیجیے۔'' وہ کہنے Ù„Ú¯Û’Û” کیا آپ Ú©Ùˆ دولت مطلوب ہے'' فرمانے Ù„Ú¯Û’ نہیں مجھے دولت Ú©ÛŒ ہوس نہیں۔ درویش آدمی ہوں اللہ مجھے ضرورت Ú©Û’ مطابق عطا کر دیتا ہے۔'' پھر فقیر Ù†Û’ پوچھا۔ کیا دنیا میں عزت Ùˆ جاہ Ú©Û’ طلبگار ہو؟'' Ø+ضرت Ù†Û’ فرمایا۔ نہیں وہ بھی اللہ Ú©Û’ فضل سے Ø+اصل ہے۔ میں کسی اونچے رتبے کا طالب نہیں۔'' سائیں جی Ù†Û’ پوچھا تو پھر کیا خدا سے ملنا چاہتے ہو؟''
اس پر Ø+ضرت Ú©ÛŒ آنکھوں میں خاص Ú†Ù…Ú© پیدا ہوئی۔ فرمانے Ù„Ú¯Û’ ''خدا سے ملنا! سائیں جی خدا خدا کرو۔ میں بندہ وہ خدا! میرا اس کا واسطہ صرف بندگی کا ہے۔ ملنا کیا معنی؟ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ خدا مجھے ملنے آرہا ہے تو میں بیس کوس بھاگ جاؤں۔ اس لئے کہ دریا قطرے سے ملے گا تو قطرہ غائب ہو جائے گا۔ میں قطرہ Ú©ÛŒ Ø+یثیت سے قائم رہنا چاہتا ہوں اور اپنے آپ Ú©Ùˆ مٹانا نہیں چاہتا بلکہ قطرہ رہ کر اپنے آپ میں دریا Ú©Û’ خواص پیدا کرنا چاہتا ہوں۔
اس پر سائیں بے خود ہو کر جھومنے لگے اور کہنے لگے ''واہ اقبال۔ جیسا سنتے تھے ویسا ہی پایا تو خود آگاہ مشرب ہے تجھے کسی فقیر کی دعا کی کیا ضرورت ہے۔''